نومولود خطیب

ظفر شیر شاہ آبادی
Posted By -
0

ہمارے عزیز اور پڑوسی ملک کی ایک معروف شخصیت محترم ابوبکر قدوسی صاحب ہیں. عموما سیرت کے واقعات کو وہ جب لکھتے ہیں تو اس سحر انگیزی سے لکھتے ہیں کہ گویا وہ واقعہ ابھی رونما ہورہا ہو. اور ان کی تحریر کی اسی سحر انگیزی کی وجہ سے میں ان مداح ہوں. 


ٹرین میں تھا، موبائل کھولا تو قدوسی صاحب کی ایک تحریر نظروں سے گزری. جس میں انھوں نے ایک نوعمر بچے کی تصویر کے ساتھ اس کے خطبۂ جمعہ کی تشہیر اور حمایت میں ایک جذباتی اپیل کیا ہے. مجھے قدوسی صاحب کے اس پوسٹ سے اختلاف ہے! چوں کہ قدوسی صاحب نے اپنے پوسٹ میں تبصرے اور کمنٹ کے آپشن کو لمیٹیڈ (محدود) کیا ہوا ہے. اس لیے میں الگ سے تبصرہ کر رہا ہوں.

 

انھوں نے کہا: "ہمارے مدارس کے طلباء دوران تدریس جمعہ شروع کر دیتے ہیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ۔ اسی طرح اسی نظر سے اس بچے کو بھی دیکھ لیجیے ۔ " نیز وہ لکھتے ہیں: "خود ہمارے علماء کے بچے اگر اس عمر میں خطبہ جمعہ شروع کریں تو گھر میں خوشی کا سماں ہوتا ہے سو اسی نظر سے دیکھ لیجیے ۔۔۔۔" اس پوسٹ کی شروعات میں ہی محترم نے لکھا: اس بچے کو دیکھ کر مجھے برادر ابتسام الہٰی ظہیر یاد آ گئے۔ یادش بخیر یہی چہرہ مہرہ تھا اور ابھی داڑھی نہیں آئی تھی کہ والد مکرم علامہ شہید رخصت ہوئے ۔سو محبت میں اور کچھ تازہ تازہ صدمے کے سبب لوگ دیوانہ وار آئے اور آپ کو جلسوں اور خطبات جمعہ کے لیے بلانا شروع کیا ۔ اور اس وقت کو اب اڑتیس برس گزر چکے اور آپ کا تبلیغ دین کا سفر جاری ہے ۔۔۔ جو بیگم کوٹ کانفرنس میں خود علامہ شہید نے شروع کروایا تھا ۔۔۔ جی آخری کانفرنس میں علامہ شہید نے ابتسام الہٰی ظہیر صاحب سے تقریر بھی کروائی تھی ۔، پھر موچی دروازے کے جلسہ عام بھی تقریر کروائی۔۔۔۔"

 ان مثالوں کے ذریعے محترم نے یہ بتانا چاہا کہ اس بچے پر ہونے والے اعتراضات غیر ضروری ہیں. حال آں کہ انھوں نے خود بھی اس پر اعتراض کر ہی دیا کہ: "البتہ یہ بھی سنا ہے کہ بسا اوقات غلطیاں بھی کرتے ہیں." اور کہا: "داعی کا فرض ہے کہ  فتوے کے میدان میں بنا صلاحیت کے قدم نہ رکھے ، تکمیل  علم کے بغیر سوال و جواب کی نشست جمانا ہرگز درست نہیں."

لیکن ان تمام مثالوں میں ہی انھوں نے دبے الفاظ میں اس کا رد بھی چھپا رکھا ہے. وہ یہ کہ یہ بچے جو خطبے دیتے ہیں وہ مدارس میں ماہر اساتذہ کی نگرانی میں زیر تعلیم ہیں، کوئی ان میں سے کسی عالم ہی کا بیٹا ہے، جو خود بھی ان کی تربیت کرتا رہتا ہے. خود میں نے بھی والد مرحوم کی ایما پر کم عمری میں خطبے دیا ہوں. لیکن اس نئے حافظ و خطیب یا ان جیسے بے نکیل و مہار خطیب حد سے آگے گزرنے لگتے ہیں! اور زبان و بیان کی خوب صورتی کے سبب ان کو ملنے والی پذیرائی ان کو ڈھیٹ اور دین کے معاملے میں جری بنا دیتے ہیں! اور پھر وہ فتوے دینے لگتے ہیں اور فضلوا و اضلوا کے مصداق بن جاتے ہیں! 


اس لیے ان جیسے نومولود لوگوں کی رہ نمائی بہت ضروری ہے. ان سے ہم دردی اپنی جگہ، لیکن ان کو باقاعدہ علم سے وابستہ کرنے کی ضرورت ہے.

ہم پتہ نہیں دین کے معاملے میں اتنے دل پھینک کیوں واقع ہوتے ہیں!! جب کہ دنیاوی امور میں کوئی بے وقوف سے بے وقوف ترین شخص بھی ایسی حماقت نہیں کرتا ہے، کہ اپنے کسی مریض کا آپریشن گاؤں کے کسی جھولا چھاپ ڈاکٹر سے کرائے! 

جھولا چھاپ ڈاکٹروں کی خدمات کا سبھی کو اعتراف ہے، اور فی زمانہ قریے بادیوں میں آج بھی ان کی ضرورت کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن ان سے صرف ابتدائی معالجہ تک فائدہ اٹھایا جانا چاہیے نہ کہ غامض امور میں بھی انھی پر اعتماد کیا جائے. 


اس لیے بردرز اور وہ داعی جو شرعی علوم سے باقاعدہ وابستہ نہیں ہیں ان کو پہلے علم حاصل کرنا چاہیے. اور ہمیں انھیں پروموٹ کرنے سے پہلے ان کی علمی لیاقت کا جائزہ لینا چاہیے. ولا ازكي علی الله أحداً. 

اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.


Post a Comment

0Comments

Please Select Embedded Mode To show the Comment System.*