اور حسینہ بھاگ گئی

ظفر شیر شاہ آبادی
Posted By -
0

سقوط بنگلہ دیش  کے عنوان سے میرے گزشتہ مضمون سے بعض احباب کو لگا کہ شیخ حسینہ کے لیے میں بہت نرم گوشہ رکھتا ہوں!  کم از کم مجھ جیسے مولوی کے لیے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ نہ صرف ظالم تھی بلکہ اس نے علمائے  اسلام کو صرف اس بنیاد پر قید کیا تھا کہ عوام میں ان علما کی مقبولیت جنون کی حد تک تھا۔ اور یہ علما سیاسی تھے۔  جو کسی بھی وقت عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے آمادہ کر سکتے تھے۔ اپنے مخالفین پر شکنجہ کسنے کے لیے  اس مطلق العنان حکم ران نے سپریم کورٹ تک کو اپنے تابع کر لیا۔ اور پھر بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے وقت رضاکار ہونے کی شک کی بنا پر ہی علما کو تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ میں جانتا ہوں کہ کسی بھی ظلم کی حمایت کرنا ایک بد ترین جرم ہے۔  اور حسینہ واجد  کے ظالمہ ہونے پر مجھے کسی قسم کا شک و تردد نہیں ہے۔

انٹرنیٹ پر موجود بعض مواد کی بنا پر مجھے یوں لگا تھا کہ بنگلہ دیش کو حسینہ واجد کے دور میں  بہت ترقیاں حاصل ہوئیں، اور اس بیانیے کو میں درست سمجھنے لگا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ بنگلہ دیش کی کرنسی کا پہلے کے مقابلے میں مضبوط ہونا ہے۔ اور اسی طرح سوشل میڈیا میں ترقیوں کے قسم ہا قسم کے نشریات آئے دن موصول ہوتے رہتے ہیں۔ اور اسی بنا پر میں نے یہ عندیہ قائم کیا تھا کہ واقعی بنگلہ دیش  ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اور اسی وجہ سے  میں نے  صرف اس ترقی کی تعریف کی تھی۔ لیکن اب میں اپنے اس عندیہ سے رجوع کرتا ہوں، کیوں کہ یہ ترقی نہیں ایک قسم کی ملمع سازی تھی۔ اور بھارتی سیاسی جملوں کی طرح ہی ایک جملہ اور لالی پاپ تھا۔ جب بنگلہ دیش کے تعلق سے مزید جان کاریاں موصول ہوئیں تب جا کر دھیرے دھیرے یہ واضح ہونے لگا کہ یہ  ترقی محض دور کے ڈھول کی طرح تھی۔    جو حقیقت سے بہت دور تھی۔

 جن دنوں میں قطر میں تھا،  مادری زبان بنگلہ ہونے  کی وجہ سے بنگلہ دیشیوں سے ایک الگ ہی لگاؤ تھا۔  اس لیے میرے پاس بنگلہ دیشی احباب کا ایک وسیع حلقہ تھا۔ جن میں علما اور عوام سبھی شامل تھے۔ جب پہلے پنج سالہ حکومت کی تکمیل کے بعد حسینہ نے بنگلہ دیش کی جمہوریت اور انتخابی نظام کو یرغمال بنا لیا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ عوام اپنے ملک جانے سے گھبراتی تھی۔ باریش علما کئی سالوں تک اسی خوف سے وطن نہیں گئے۔ کیوں کہ داڑھی والوں کو ایئرپورٹ پر ہی ہراساں کیا جاتا تھا۔ اور بہت سوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔

 

شیخ حسینہ کے خاندان کا قتل کیا جانا قابل مذمت ہے۔ اور اس میں شامل افراد کو سزا ملنی چاہیے۔ اس سے کوئی صاحب رائے اختلاف نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ جنہوں نے قتل نہیں کیا ان کو بھی محض اس لیے سزائے موت دے دی جائے کہ وہ اس پارٹی کے حامی یا رہنما تھے جس پارٹی کے حامی قاتلین تھے۔ یہ ظلم ہے اور اس ظلم کا گھڑا دیر و سویر بھرنا ہی تھا۔ سو بھر گیا۔


ایسی ظالمہ و جابرہ کے چلے جانے سے ہر زندہ دل انسان کو خوشی ہونی چاہیے۔  لیکن ان حالات میں اس خوشی کے ساتھ ساتھ  مستقبل کی سنگینی بڑی غم گین کر دینے والی ہے۔ اسے ہندوستانی سیاست کے تناظر میں یوں سمجھیے کہ گویا جانے والا  مودی ہو اور جس نے اسے بھاگنے میں مدد کی  وہ یوگی ہو تو خوشی کی جگہ غم ہی ہونا چاہیے۔  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوج حسینہ کو گرفتار کرتی، اور عدالت عالیہ میں اس کے جرائم پر سنوائی کے بعد دستور کے مطابق اسے سزا دی جاتی۔  تو ان تمام لوگوں کو راحت نصیب ہوتی جنہوں نے اپنے جگر پاروں کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ یا جن کے اپنوں کو محض شک اور دشمنی کی بنا پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔  لیکن فوج کی نگرانی اور فوج کے ہی ہیلی کاپٹر سے اسے ملک سے باہر جانے دینا خود اپنے آپ میں کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔

بتایا  جا رہا ہے کہ فوج کے سربراہ حسینہ کے رشتہ دار ہیں۔ اور چوں کہ 15 سالوں کے بعد مزید حسینہ کا تخت پر باقی رہنا  تقریباً ناممکن تھا۔  بنگالی عوام کا مزاج وہ  جانتی ہے۔ اس لیے اس طرح کے مصنوعی حالات بنائے گئے۔ ورنہ طلبا کی تحریک کے مطالبات کچھ ایسے نہ تھے کہ ان کو حل نہ کیا جا سکے۔ حالات اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ کھیل اسی لیے کھیلا گیا کہ شیخ حسینہ ملک سے  بھاگ کر باہر سے ہی اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے حکومت چلائے۔

بہر کیف یہ میرا اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کا تخمینہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن فی الحال بنگلہ دیش ایک سنگین قسم کے سیاسی بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ایسے حالات میں پر امن انتخابات کروانا فوج کے لیے چیلینج ہے۔ اور فوج کے رویے سے لگتا نہیں ہے کہ وہ فوجی آمریت کے اس موقع کو ہاتھ سے جانے دے گی۔

بہ ہر حال   خوشی اور مستقبل کی فکر مندی کے بیچ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ بنگلہ دیشیوں کو مزید ہمت و حوصلہ عطا کرے کہ وہ مکمل طور پر آزاد اور کامیاب حکومت تشکیل دے سکیں!


Post a Comment

0Comments

Please Select Embedded Mode To show the Comment System.*