بنگلہ دیش میں پائیدار امن کا قیام ضروری

SHERSHAHBADI Admins
Posted By -
0
( روزنامہ انقلاب اردو میں 8 اگست2024  کو شائع شدہ)

از: عادل عفان، براری، کٹیہار

مجھے اکتوبر 2022 کو بنگلہ دیش کے ایک یونیورسٹی پروگرام میں شرکت کرنے اور بنگلہ دیش کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ڈھاکہ کی زیارت کے دوران کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں ایک کمزور اور غریب ملک میں ہوں، لیکن ڈھاکہ سے باہر کی دنیا بالکل الگ تھی، وہاں کے عوام سے روبرو اور گفتگو کرنے پر احساس ہوا کہ تقریباً سبھی لوگ حکومت کی آمرانہ پالیسی، آسمان چھوتی مہنگائی اور بے روزگاری سے سخت نالاں ہیں۔
دراصل ملک کی پبلک ایڈمنسٹریشن رپورٹ 2022 کے مطابق، بنگلہ دیش میں 1.9 ملین سے زیادہ سرکاری ملازمین کی ویکنسیز ہیں۔ ان ملازمتوں کے لیے نصف سے زیادہ افراد کا انتخاب میرٹ پر نہیں کیا جاتا بلکہ خواتین، کم ترقی یافتہ اضلاع، اور دیگر پسماندہ گروہوں کو ترجیح دیتے ہوئے تقریباً 56 فیصد عہدے کوٹہ سسٹم کے تحت بھردیا جاتا ہے جبکہ محض 44 فیصد عہدے میرٹ کے بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ اس کوٹہ سسٹم کا سب سے متنازعہ پہلو 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ آزادی میں لڑنے والے فریڈم فائٹرز "مکتی جودھا" کے بچوں کے لیے 30 فیصد اسامیاں مخصوص ہیں۔ اس قوانین کو 1972 میں آزادی کے رہنما شیخ مجیب الرحمان نے متعارف کرایا تھا، جو شیخ حسینہ کے والد تھے، اس مسئلہ میں بنگلہ دیشی مبصرین کا خیال ہے کہ دراصل یہ ایک چور دروازہ ہے جس کے تحت حکومت اپنے من پسند اور چہیتے لوگوں کو سرکاری ملازمتوں اور سول سروس کے عہدوں پر تعینات کرتی ہیں، کیونکہ آزادی کو ۵۳؍سال گزرچکے ہیں اور ’’مکتی جودھاؤں ‘‘کی ایک بڑی تعداد مٹی میں سما گئیں ہیں لیکن پہلے ان کی اولادیں اور اب ان کی اولادوں کی اولادیں بھی سرکاری نوکریوں اور اعلیٰ حکومتی عہدوں سے لطف اندوز ہو رہی ہیں، جبکہ ان سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند بے روزگار نوجوان دھکے کھارہے ہیں کیونکہ ان کے آباؤاجداد’’ مکتی جودھا‘‘ نہیں تھے۔ اسی مسئلہ کو لیکر یونیورسٹی طلباء نے بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع کر دیئے اور ہزاروں طلبا کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئے۔ رپورٹ کے مطابق مظاہروں کے دوران پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ حسینہ حکومت نے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی اور فوج اور ٹینکوں کا سہارا لیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ مزید برآں شیخ حسینہ کے *رضاکار* اور مظاہرین کو *دہشت گرد* والے بیان نے جلتی ہوئی آگ میں گھی ڈال دی کیونکہ لفظ رضاکار بنگلہ دیشی کے نزدیک غدار کے مانند ہے اور بلاآخر حسینہ کے تخت کو تاراج کردیا گیا اور انہیں جان بچا کر ملک سے راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔
بنگلادیش میں اتنی بڑی تبدیلی اور عدم استحکام محض کوٹہ سسٹم کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ برسوں سے جل رہے لاوا آخر کار پھوٹ پڑا، بنگلادیشی مبصرین کے مطابق انکے چار بنیادی وجہیں ہیں ۔
1۔ *عوام کی آواز دبانا*: جمہوری ملک میں لوگوں کی آواز کو دبانا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ جمہوری اقدار کو مجروح کرتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف رائے کا حق چھین لیا جاتا ہے، مخالف نقطہ نظر کو خاموش کرنے یا دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ انفرادی آزادی اور اجتماعی ترقی کے لیے سنگین خطرہ بن جاتا ہے، اور جمہوری عمل مسخ ہونے کے ساتھ ساتھ طاقت کے ارتکاز، شہری آزادی کے خاتمے اور عدم مساوات کو بڑھاوا دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک مستحکم جمہوریت قائم کرنے لیے ہر فرد کی اظہار رائے کے حق کو قبول کرنا اور اس کی حفاظت کرنا نہایت ضروری ہے۔
2: *انتخابات میں دھاندلی*: ایک جمہوری ملک میں انتخابی عمل میں ہیرا پھیری اور دھاندلی کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، کیونکہ کبھی نہ کبھی عوام کی ناراضگی کا لاوا پھٹ پڑے گا۔ انتخابی عمل جمہوریت کی بنیاد ہے، جہاں شہری اپنے لیڈر کے انتخاب اور اپنی قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، جب یہ عمل ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی سے داغدار ہوتا ہے، تو اس سے لوگوں کے جمہوریت پر اعتماد اور یقین ختم ہو جاتا ہے۔ انتخابی نتائج کو دانستہ طور پر چھیڑ چھاڑ کرنا، ووٹرز کو حق رائے دہی سے محروم کرنا یا دبانا اور اور میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے غلط معلومات شائع کرنا، جب اس طرح کی دھوکہ دہی کے واقعات سامنے آتے ہیں تو لوگوں میں غصہ اور مایوسی کا ہونا فطری ہے، اور یہ غصہ اکثر مظاہروں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک جمہوری حکومت کے لیے اپنے شہریوں کا اعتماد بحال کرنا اور انتخابی عمل کو شفاف اور اسکو تحفظ فراہم کرنا نہایت ضروری ہے جو بنگلہ دیش میں مفقود تھا۔
3: *اپوزیشن کو کچلنا*: ایک جمہوری ملک میں، جہاں آزادی اور اظہار رائے کے اصولوں کو پروان چڑھنا چاہیے، سخت اصولوں اور جھوٹے مقدمات کے ذریعے مخالفین کے گلا گھونٹنے سے دانشور طبقہ گھٹن اور بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے، اور آخرکار ملک کے دانشوران غیر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جہاں انہیں اپنے خیالات اور رائے کو ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن ان ذہین ذہنوں ملک سے باہر چلا جانا نہ صرف ملکی ترقی کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ جمہوری اقدار کے زوال کا سبب بنتا ہے۔
4: *مہنگائی اور بےروزگاری*: جب کسی ملک کے وسائل صرف چند امیر افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوجاتے ہیں، تو بے روزگاری اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور یہ لوگوں میں شدید غصہ اور مایوسی پیدا کر دیتی ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ، معاشی استحکام اور خوشحال ہونے کے خوابوں کو چکنا چورکردیتے ہیں۔ کیوں کہ عوام اس بات کو محسوس کرنے لگتا ہے کہ
ایک طرف چند لوگ دولت کے انبار لگا رہے ہیں اور ملک کے وسائل پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف اکثریت اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ شدید عدم مساوات لوگوں میں ناراضگی اور ناانصافی کا احساس بڑھا دیتی ہیں۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ان کی محنت اور کوششیں صرف چند خوش قسمت لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہیں تو ان میں بے چینی اور بغاوت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری حکومت بنگلہ دیش سے سبق سیکھے گی، کیونکہ ہمارے پڑوسی ممالک میں صرف بنگلہ دیش ہی ایک ایسا ملک تھا جس سے ہمارے ملک کے تعلقات کسی قدر اچھے تھے، لیکن جن اسباب کی بنا پر بنگلہ دیش میں تختہ پلٹ ہوا، پچھلے چند سالوں وہ سارے اسباب کا مشاہدہ ہم اپنے ملک میں بھی کر رہے ہیں۔ اگر ہم ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر غور کریں تو یہ واضح ہو جاتی ہے ہماری خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہے، اور اس ناکامی کا ثبوت پڑوسی ممالک میں عدم استحکام اور بگڑتے تعلقات ہیں، اور ساتھ ہی ان ممالک میں چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران، ہندوستان کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مستحکم تعلقات کو برقرار رکھنے میں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں ہندوستانی خارجہ پالیسی کے تئیں ایک منقسم نقطہ نظر پیدا ہوا ہے۔ اس سے چین کو پاکستان،نیپال، سری لنکا، مالدیپ اور میانمار جیسے ممالک میں مضبوط قدم جمانے کا موقع ملا ہے، اور اس لسٹ میں اب بنگلہ دیش بھی جڑ گیا ہے۔اپنے پڑوسی ممالک کے خدشات اور خواہشات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے میں ہندوستان کی نااہلی نے ایک خلا پیدا کر دیا ہے جسے چین نے فوری طور پر پر کیا ہے۔ چین کی اسٹریٹجک سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، اور سفارتی تعلقات نے اسے خطے میں اہم اثر و رسوخ والا ملک بنا دیا ہے۔ بظاہر ابھی ایسا لگ رہا ہے کہ بنگلہ دیشی فوجی سربراہ حالات سے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر قابض ہونا نہیں چاہتے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ بنگلہ دیش میں پائیدار امن قائم ہو جائے گا یا نہیں اور ساتھ ہی وطن عزیز ہندوستان کے لیے یہ صورتحال نیک فال کا باعث ہر گز نہیں ہے۔ حکومت ہند کی اس پر گہری نظر ہونی چاہیے کہ چین کو بنگلہ دیش کی حالات سے فائدہ نہ اٹھانے کا موقع ملے۔ کیونکہ بنگلہ دیش ہمارے ملک کے لیے بے حد اہم اور اسٹیرٹیجک پڑوسی ہے.


Post a Comment

0Comments

Please Select Embedded Mode To show the Comment System.*