بہت اعلی نسب میرا ہے میں ہوں شیر شہ بادی
کہ شجرہ شاہ سوری کا ہے میں ہوں شیر شہ بادی
بہت اندر تلک دلدل میں میری قوم جا پہونچی
قدم اب سوچ کر رکھنا ہے میں ہوں شیرشہ بادی
ہر اک سُو اب اندھیرا گرچہ میرا راستہ روکے
اندھیروں سے مجھے ڈر کیا ہے میں ہوں شیر شہ بادی
ہمی تھے قوم کے والی ہمی معمار کہلائے
مرے اجداد کا فدیہ ہے میں ہوں شیر شہ بادی
نرالے طور ہیں اس قوم کے انداز لاثانی
الگ انداز جینے کا ہے میں ہوں شیر شہ بادی
انہیں بس روشنی کی اک رمق جھنجھوڑ سکتی ہے
مجھےغفلت سے اب اٹھناہے میں ہوں شیر شہ بادی
حلاوت اپنی بولی کی وہی بس جانتا ہوگا
کوئی غربت میں جو بولا ہے میں ہوں شیر شہ بادی
مجھے گُھس پَیْٹھِیا کہتے ہو ظالم سن لو صدیوں سے
مرا وَنْشَج یہیں رہتا ہے میں ہوں شیر شہ بادی
چلو اب قوم کی خاطر نئے کچھ خواب چنتے ہیں
اٹھو تاریخ میں لکھنا ہے میں ہوں شیر شہ بادی
کہ لفظ شیر شہ بادی کو وہ طعنہ سمجھتے ہیں
ظؔفر یہ فخر سے کہتا ہے میں ہوں شیر شہ بادی