تحریر: ابو فوزان تنویر ذکی مدنی
2024 کا لوک سبھا الیکشن سرزمین سیمانچل/ بہار میں ابھی ختم بھی نہیں
ہوا تھا کہ ملک کے نہایت ہی معزز ،محترم ،باوقار،محنتی ، ،دلیر ،مضبوط ،قران و
حدیث پر عامل ،شرک و بدعت سے دور ، توحید خالص کے داعی و علمبردار اور دور جدید
میں تیزی سے راہ تعلیم پر گامزن ، کسب معاش میں جفاکش شیرشاہ آبادی برادری کے بارے میں ایک ویڈیو کلپ
تیزی سے گردش کرنے لگی جسے سن کر شدید
صدمہ پہنچا ۔
اس ویڈیو کلپ میں کھلے طور شیرشاہ آبادی برادری کو بنگلہ دیشی قرار دینے کی مذموم اور
ناپاک کوشش کی گئی ہے، یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ لگ رہا ہے ۔ ویڈیو کلپ Lallan Top ٹی وی چینل کے انتخابی انٹرویو کا
ایک حصہ ہے بطور اینکر جناب سوربھ دیویدی خود اس انٹرویو میں موجود ہیں۔انٹرویو
چلتے پھرتے عام پبلک کے درمیان نہیں لیا گیا جو کہ الیکشن کے ایام میں عام طور پر
ہوتا ہے لیکن یہ انٹرویو کسی ہوٹل میں لیا گیا ہے جہاں وہ لوگ ان دنوں قیام پذیر
ہیں۔ تین لوگوں نے مشترکہ
بیان دیا ہے اور تینوں نے ہوبہو بات کہنے کی کوشش بھی کی ہے ۔
ویڈیو سن کر احساس ہوتا ہے کہ یہ کام مکمل منصوبہ بند طریقے سے ہوا ہے ۔ جس کا لب لباب یہی ہے کہ شیرشاہ آبادی
برادری کے لوگ بنگلہ دیشی ہیں۔
یہ ایک مذموم مگر منصوبہ بند گھناؤنا الزام
ہے جو ان باوقار شہریوں پر لگایا جارہا ہے ،اگر بروقت اس کی سخت مذمت اور تردید
نہیں کی گئی تو بدخواہوں کی ناپاک زبان سے نکلے ہوئے لفظوں کے ذریعہ ڈالا ہوا یہ
شگاف رفتہ رفتہ ہمارے سینہ کا ناسور بنتا چلا جائے گا ۔ پھر کوئی مرہم ،کوئی دوا
اور کوئی دعا بھی ٹھیک سے کام نہیں کرےگی
اور انجام بھیانک بھی ہوسکتا ہے۔
مگر
جذبات میں آکر دفاعی قدم اٹھانا اور جوش میں آکر ہوش کھونے کی غلطی کا
صدور بالکل نہیں ہونا چاہیے ۔اس برادری کے
پاس اپنا ایک مضبوط ایسوسی ایشن اور تنظیم ہے، اپنی تحریک ہے ، ہزاروں کی تعداد میں علماء ، صلحا اور
دانشوران بھی ہیں، ان سب کو بلا
تاخیر آپس میں رابطہ بڑے پیمانے پر بڑھانا چاہیے اور کوئی ٹھوس قدم
اٹھانے سے پہلے متعدد بار آپس میں تبادلہ خیال بھی کرنا چائیے ،منفی انداز اپنانے
کے بجائے مثبت انداز میں کام دفاعی کام
کرنے کی کوشش کرنی چائیے ،بلکہ ہر کسی کو اپنی جگہ کھڑے ہوکر اپنے حساب سے
مذمت کرنے اور اپنی باوقار شہریت کو ثابت کرنے کے بجائے اجتماعی شکل میں ہر کام کو
انجام دینے کی پوری کوشش کرنی چاہیے بلکہ ہر مذمتی بیان ،اور دیگر کوئی بھی دفاعی اسٹیٹمینٹ جب تک دانشوران
کی کمیٹی سے پاس نہ ہو جائے اس کو ہرگز ہرگز پیش نہ کیا جائے ۔
ظاہر ہے اس مذموم بیان کی مذمت تو ہونی ہی چاہئیے مگر یاد
رہے بہت ہی سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ عموما ایسے بیانات دینے والے مخاطب کی ذرا سی غلطی سے اپنے
مطلب میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
لہذا آپ سبھوں سے گزارش ہے کہ غلطی سے بھی ایسا نہ ہونے دیں
۔بلکہ اجتماعیت کو تیزی سے فروغ دیں اور دانشوران کے فیصلے کو مقدم رکھتے ہوئے
مثبت انداز میں کام کریں،اور اس نازک گھڑی میں تدبیریں اختیار کرنے ساتھ ساتھ فرمانِ الہی ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ﴾ [البقرة:45] کے مطابق اللہ سے مدد طلب کریں ،صبرکا پیمانہ کبھی لبزیر نہ ہونے دیں اور
نماز کا سہارا بھی ضروری طور پر لیں ۔
اس ویڈیو کلپ کا کھلا ہوا بیان در حقیقت دیش کے وزیر اعظم نریندر مودی صاحب کے ایک مبہم جملہ کی کھلی تشریح ہے ۔حالیہ انتخابی
دورے شباب پر تھے اسی دوران وزیر اعظم صاحب سیمانچل بہار تشریف لائے اور پورنیہ کے
اجلاس میں موصوف اپنے سیاسی مفاد کے لئے
یہ غیر ذمہ دارانہ بیان دے
دیا کہ”
سیمانچل میں گھس پیٹھی لوگ ہیں اور کانگریس کی سرکار بنے گی تو ان کو قوم
کا پیسہ دے دے گی ۔“ اس جملہ سے پہلے عام مسلمان مراد لئے گئے مگر آج
جب یہ کلپ آئی تو اس بیان کا مکمل رخ شیرشاہ آبادی برادری کے باوقار شہریوں کی طرف
پھیر دیا گیا۔جو یقیناً ناقابل برداشت ہے۔
گزشتہ سال بہار کے قلیل مدتی سابق وزیر اعلی جناب جیتن رام
مانجھی نے بھی کچھ اسی انداز کا بیان دیا تھا جو مہینوں تک موضوع سخن بنا ہوا
تھا ہوا تھا، اس وقت بہار کے موجودہ وزیر
اعلی جناب نتیش کمار جی کی ٹیم نے اس برادری کے درمیان آکر جیتن رام مانجھی کے اس
بیان کی تردید کی تھی ،ایک پروگرام میں راقم الحروف بھی شامل تھا ،مگر افسوس کہ جےڈی
یو کے اتحادی بھاجپا نے اس کا بھی لحاظ نہیں
کیا ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کشن گنج کی سرزمین کے ایک ایم ایل
اے صاحب نے اپنے مفاد کی خاطر سب سے پہلے
یہ آگ لگائی جو وقتا فوقتاً دبتی ،دہکتی
اور سلگتی رہی ۔اس زمانے توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج کے بانی و چیرمین
اور سیمانچل کے سر سید جناب شیخ عبد المتین السلفی رحمہ اللہ نے اس کے دفاع میں
نہایت ہی اہم قائدانہ کردار ادا کیا تھا ،جناب غلام سرور صاحب اور جناب تسلیم الدین صاحب اور دیگر سیاسی
قائدین نے مولانا عبد المتین رحمہ کی آواز پر لبیک کہا اور اس فتنہ کو سبوتاژ کیا ۔
اب سیمانچل میں نہ اس طرح کے دلیر اور قوم
کے لئے مخلص علماء رہے اور نہ بہار میں اس طرح کے دلیر ،جاں باز اور ملخص مسلم
رہنما رہے ۔بلکہ پورے ملک کا منظر نامہ بھی یہی ہے بلکہ اب تو مسلم لیڈران کی تعداد بھی دن بہ دن سمٹتی جا رہی ہے اور جو ہیں
بھی تو ملی اور قومی مسائل پر بات کرنے سے
ان کا دم گھٹنے لگتا ہے اور روح کانپنے
لگتی ہے۔کرسی بچی رہے بس یہی فکر دامن گیر
رہتی ہے۔ الا من رحم ربی۔
؏ نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے
زلفِ ایاز میں
مگر لا تقنطو من رحمة اللّٰه ، مایوس ہونے کی قطعا ضرورت نہیں ہے
بلکہ اس برادری میں جو افراد ،علماء،صلحاء،اور دانشوران موجود ہیں وہ بھی کسی نعمت
سے کم نہیں ہیں ، یہ صحیح سے جاگ جائیں اور متحد ہوکر منصوبہ بند طریقے سے کام کو
انجام دیں تو یہ طوفان بھی تھم جائے گا ، ان شاءاللہ ۔
؏ ذرا
نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اگر اس ویڈیو کے بیان پر غور کریں تو اسی میں اس بیان کی
کھلی تردید بھی موجود ہے ۔
مثلاً: ایک شخص کا
بیان کے یہ ”یہ لوگ ہندوستان کے معروف
بادشاہ جناب شیرشاہ سوری کے حمایتی میں سے ہیں ۔“
یعنی خود ہی کہہ رہے
کہ یہ اسی ہندوستان کے ہیں اور جب
لازمی طور پر جب اسی بادشاہ کے خاص لوگ ہیں تو یقینی طور پر یہ لوگ ضلع سہسرام
اور اس کے مضافات اور قریب و بعید ہی کے لوگ رہے ہوں گے۔جو اپنے محبوب بادشاہ کی
اچانک بارود حادثہ میں وفات کے بعد بکھر
گئے ، بلکہ اپنے محبوب بادشاہ شیر شاہ سوری کے شدید ترین مخالف مغلیہ سلطنت کے
باحیات افراد، مغل بادشاہ، مغل شہزادے ، مغل وزراء، اور
مغل فوج سے بچنے کے لیے ادھر ادھر منتشر ہوگئے ۔ چونکہ یہی لوگ شیرشاہ سوری
کے سچے وفادار اور حامی تھے جو لازمی طور پر مغل کے مخالف اور بعد
میں مطلوب( (Wanted بن گئے تھے
۔لہذا بہار کے مختلف علاقوں میں اور بہار کی
پڑوسی ریاستوں میں جاکر ان کا
چھپنا اور چھپ کر اپنی جان بچانا
قرین قیاس ہے اور یہ روپوشی ان حالات میں فطری عمل ہے اور ان کے مظلوم ہونے کی بین
دلیل بھی ہے۔
بنگال کے ضلع مرشد آباد ،مالدہ دیناج پور اور کوچ بہار اور اسی طرح صوبہ بہار
کے ضلع کٹیہار ،پورنیہ ،کشن گنج ،ارریہ،اور سپول میں اس برادری کی آبادی بکثرت
پائی جاتی ہے، اس قوم نقل مکانی ایک خاص عمل جو عصر حاضر میں تلاش معاش کی وجہ سے
عام ہے مگر ماضی میں مغلوں کے ڈر سے جان بچانے کے لئے مجبوری کی حالت میں اٹھایا
گیا ایک قدم تھا۔
یقیناً بعض شیرشاہ
آبادی افراد مرشد آباد سے ہجرت کرکے سیمانچل کے بعض علاقوں میں آباد ہوئے ہوں گے مگر ان کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے جو
سیمانچل کے ان تمام اضلاع میں پہلے سے آکر آباد ہوگئے تھے۔ ندیوں کے کنارے اور جنگلوں کے بیچ میں زندگی
گزارنا کس قدر مشکل کام ہے مگر جان بچانے کے لئے ہر مشکل کرنا پڑتا ہے اور پھر
رفتہ رفتہ وہ کام زندگی کا ایک غیر محسوس
حصہ بن جاتا ہے۔
مان لیا جائے کہ
بعض لوگ مرشد آباد سے آکر سیمانچل میں بسے ہیں یا آج بھی آکر بس رہے ہیں تو
اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ کیا مرشد آباد اپنے ملک کا ایک اٹوٹ حصہ نہیں ہے ۔ یقیناً ہے تو وہیں سے نکل کر دوسری جگہ آباد
ہونا کیوں کر جرم ہو سکتا ہے۔
اس کلپ میں بنگلہ دیش سے بھی آنے کی بات کہی گئی ہے ۔اس
سلسلہ میں عرض یہ ہے اگر اپنے محبوب
بادشاہ شیر شاہ سوری کے انتقال کے بعد کچھ لوگ مغلوں سے ڈر کر چھپ کر مشرقی بنگال ، جو کہ اس وقت اسی ملک ہندوستان
کا ایک بڑا صوبہ تھا وہاں چلے گئے اور جب مغلوں کا زوال ہوا تو بعض لوگ اپنی زمین
اپنی ریاست بہار کی طرف لوٹنے لگے۔ اور جہاں جن کو آسانی محسوس وہاں آباد ہوتے چلے
گئے تو اس میں برا کیا ہے ؟ اور اس عمل کو
جرم کیوں قرار دیا جا سکتا ہے ۔ کیا اس وقت بنگلہ دیش ایک الگ ملک تھا۔ نہیں ہرگز نہیں تو پھر وہاں
سے واپس آنا کیوں کر مشکوک ہو سکتا ہے۔
اگر آج بھی سرکاری ایجنسیاں غیر جانب دار ہو کر کام کرے تو یہ سچائی سامنے آئے گی گی جو
مذکورہ بالا سطور میں درج ہے۔ ملک کی آزادی سے قبل کی ہر ہجرت ناقابل گرفت اور کسی
بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ مگر ان سیاسی رہنماؤں کا کیا کیا جائے جو اپنے سیاسی مفاد کے لیے حقائق سے
آنکھیں چراتے ہیں اور آسانی سے کوئی کہانی بنالیتے ہیں۔
مودی جی نے اس برادری پر کانگریس اور بالخصوص منموہن سرکار
کی خصوصی توجہ اور مالی اعانت کا جھوٹا بیان بھی دیاہے اور تعجب کی بات ہے کہ اسی Lallan Top نے اس بیان کو فیک نیوز قرار دیا ہے ۔اور حالیہ بیان پر اس
جھوٹے بیان کا کوئی ذکر تک نہیں ہے ۔ اگر Lallan Top ان تینوں شخصوں کے
متنازعہ بیان پر ایک بار بھی وزیر اعظم
صاحب کے اس فیک نیوز کا ذکر دیتا تو تصویر
کا وہ رخ ہرگز نہیں بنتا جو بوجوہ بنتا جا رہا ہے۔ حالانکہ سوربھ دیویدی ایک ٹھیک
ٹھاک اینکر ہیں ،سیکولر مائنڈ اور ڈھنڈا مزاج ہیں مگر ان سے یہ چوک ایک سنگین چوک
ہے۔ ان کو ضرور مطلع کیا جانا چائیے ۔
یہ ایک عجیب دور ہے اس صدی کا سب سے استعمال کیا جانے والا فارمولا یہ کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولو کہ یہی جھوٹ سچ لگنے لگے۔ اس کلپ میں یہی
کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
اس لئے گزارش ہے کہ آپ تمام لوگ متحد ہوکر حالات کا جم کر مقابلہ کریں، ان شاءاللہ سچ اور سکون کا کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔
اللہ تعالیٰ خصوصی طور پر اس
برادری کو عموماً ہر مسلمان کو ہر بلا ،ہر مصیبت اور ہر نظر بد سے
محفوظ رکھے آمین۔