آج جو خبر گردش میں سے وہ سقوط بنگلہ دیش کی خبر ہے۔ پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی سابق حکمراں
حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی ترقی کے لیے کافی کچھ کیا۔ ملک میں بہت سے اصلاحات
نافذ کیے گئے۔ بعض اصلاحات مذہبی طبقوں کے لیے ناگوار تھے، جن کے خلاف دبے لفظوں
میں لوگوں نے آواز اٹھانے کی کوششیں کیں، لیکن ایک کامیاب حکمران کی طرح ان تمام مخالفتوں کو سسٹم کے زور سے اس نے کچل دیا۔ اور عوام کو یہ سمجھا ہی دیا کہ
یہ اصلاحات ملک کے لیے خوش آئند ہیں۔ اور دھیرے دھیرے بنگلہ دیش ترقی کے منازل طے
کرنے لگا۔ لیکن ماضی میں شیخ حسینہ نے علما کے خلاف اور اپوزیشن کے لیڈروں کے خلاف
جو کریک ڈاؤن کی حکمت عملی کو اپنایا تھا،
وہ اندر سے ایک لاوے کی طرح پک رہا تھا۔ اور بالآخر کوٹا کے نام پر نوجوانوں کے
ذریعے یہ لاوا پھٹ ہی گیا۔
حالیہ تحریک اور انقلاب کے معاملے میں حسینہ واجد کی
اسٹریٹیجی سمجھ میں نہیں آئی۔ آخر یہ اتنی بڑی مانگ تو تھی نہیں کہ اس پر سرے سے
عمل ہی نہ کیا جاسکے۔ کوٹا 30 فی صد کی
جگہ کچھ کم کیا جاسکتا تھا۔ اور عوام کو کسی طرح راضی کرلیتیں! لیکن لگتا ہے کہ اس
سقوط کے پیچھے کسی تیسرے فریق کا ہاتھ ہے۔ جس کی وجہ سے اتنی شاطر حکمراں بھی بے
بس ہوگئی۔
حسینہ واجد اور بنگلہ دیش کی تاریخ خون سے
لبریز ہے۔ یہ وہی مظلوم عورت ہے کہ جس کے پورے خاندان کو بنگلہ دیشی بلوائیوں نے
موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اور حسینہ صرف اس لیے بچ نکلی تھیں کہ وہ ان دنوں ملک
سے باہر تھیں! اور اپنے دور حکومت میں اسی قتل کا بدلہ حسینہ نے چن چن کر لے بھی
لیا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ بدلے کے طور پر جن لوگوں کو سرکاری طور پر اس نے سزائے
موت دلوائی تھی، وقت آنے پر ان کے چاہنے والے سر اٹھا سکتے ہیں، اس لیے اس نے تمام
سرکاری عملوں کو اپنے تابع بنا لیا تھا۔ چند سالوں پہلے جس طرح سے علما کو سزائے
موت دی گئی اور انھیں جیلوں کے حوالے کیا گیا اسے دیکھ کر تو یہی احساس ہوتا ہے کہ
عدالت عالیہ تک پر شیخ حسینہ نے اپنا
کنٹرول رکھا تھا، اور ان سے من چاہے فیصلے کروائے تھے۔ جمہوری حکومت ہونے کے
باوجود اس نے انتخابی نظام کو تقریبا کالعدم ہی کردیا تھا۔ ظاہر ہے اس طرح کی من
مانی زیادہ دنوں چلنے کی نہیں تھی۔ اور خصوصا بنگالی عوام اس قسم کی زیادتی برداشت
کرنے والی نہیں تھی۔
ماضی میں حسینہ کی طرف سے صادر ظالمانہ
فیصلوں کی رو سے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ حسینہ واجد کا جانا ایک خوش آئند بات ہے ۔
لیکن اس طرح سے فوج کی نگرانی میں فرار
ہونا ملک کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ کیوں کہ بنگلہ دیش کے سامنے اب حالات بڑے
سنگین ہیں۔ آئندہ یہاں لاء اینڈ آرڈر پتہ نہیں کس کے ہاتھوں آئے۔ یا پھر فوج ہی
آمر بن بیٹھے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ تحریکی مزاج کے لوگ اسے بہت بڑی کامیابی سمجھ
رہے ہیں، لیکن جن جن ممالک میں ماضی قریب میں اس قسم کا سقوط ہوا ہے وہاں کا حال پہلے سے بہت ہی خراب ہوگیا ہے۔ ہمارے سامنے
سری لنکا ، سوڈان ، عراق اور لیبیا جیسے ممالک کی مثالیں ہیں۔ اور ہم سب اس بات کے
شاہد ہیں کہ یہ ممالک پہلے سے بدترین حالت میں جاچکے ہیں۔
پڑوسی ہونے کے ناتے ، اور بالخصوص بنگلہ زبان ہونے کی وجہ سے ان سے
ایک دلی لگاؤ ہے۔ اللہ اس ملک کے حالات کو درست کرے۔