بنگالی قوم

ظفر شیر شاہ آبادی
Posted By -
0

تحریر: ظفر شیرشاہبادی (مسعود ظفر)... 

 شیخ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے بھاگنے کے بعد لکھنے والوں اور ویڈیو بنانے والوں کے لیے مانیے ایک وسیع میدان مل گیا ہے۔ کچھ قلم کار الحمد للہ نہایت ہی نپے تلے انداز میں لکھ رہے ہیں، اور اپنا فرض منصبی نبھا رہے ہیں۔ لیکن وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو من مانی تحریریں لکھے جارہے ہیں۔

حال ہی میں ایک تحریر نظر سے گزری، جس میں صاحب تحریر نے بنگالی قوم کے بارے اپنا حکم صادر فرمایا۔ اور انھوں نے کچھ لوگوں کو دیکھ کر اور متفرق واقعات کو بنیاد بنا کر پوری قوم پر ہی فتوی جھاڑ دیا کہ یہ بنگالی قوم ہے ہی اس لائق کہ ان پر حجاج جیسا حکم راں مسلط ہو۔ پھر اس دانش ور قلم کار کی پوسٹ پر ان کی حمایت میں کچھ لوگ بنگالیوں کو چور، زانی، مکار، جھوٹا اور بدعہد وغیرہ جیسے قسم ہا قسم کے برے اوصاف سے متصف کرتے نظر آئے۔ اور تقریبا 200 ملین سے بھی زائد بنگالیوں کی عزت سے کھلواڑ کیا۔ تعجب ہوا کہ بیش تر افراد ان میں سے سلفی العقیدہ ہیں!

اس فتوی بازی کو دیکھ کر تو ہر قوم پر یہ صفات چسپاں کیے جاسکتے ہیں۔ کیوں کہ ہر قوم میں چوری، زناکاری، مکاری، دروغ گوئی اور بدعہدی وغیرہ قسم ہا قسم کے برے اوصاف کے حامل افراد ملتے ہیں۔ اور اس بات سے کوئی اپنی برادری یا قوم کو مستثنی نہیں کرسکتا ہے۔

بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے بنگلہ دیش کے حالات کو 1947 سے ہی دیکھنا ہوگا۔ یہ جاننا ہوگا کہ یہ قوم کس شدید قسم کے ظلم و اذیت میں نشوونما پائی ہے۔ اور پھر حسینہ کے دور میں جو ظلم و جور ہوا، اظہار خیال کی آزادی پر جس طرح بندش لگی، اور سوشل میڈیا تک کو مفلوج کردیا اور وہاں اظہار رائے پر پابندی لگ گئی۔ پابندی اس طور پر کہ حکومت کے ظلم کے خلاف لکھنے والے افراد سرکاری اہلکاروں کے نشانے پر رہے۔ اور ان میں سے بعضوں کو آڈولف ہٹلر کے جیلوں کی طرح اپنے محل میں خفیہ جیل کا انتظام کیا۔ اور ان جیلیوں کتنے خوابوں اور ابھرتی جوانیوں کو خاک میں ملا دیا گیا۔ بازار میں گیا ہوا شخص اچانک غائب ہوجاتا ہے۔ یونیورسٹی سے بچہ مفقود۔ اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ حسینہ کے ظلم کے شکار ہوچکے ہیں۔ حسینہ کے ظلم کے گواہ ان سالوں کو بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے تاریک ترین سالوں کے طور پر یاد کیا جائے گا۔

ظالم حکم راں اور اس کے کارندوں کے خلاف غم و غصہ کا ہونا فطری بات ہے۔ اور اسی وجہ سے بنگالی عوام نے حسینہ کے محل کو لوٹ لیا۔ اور ایسی بد تمیزی اور غیر اخلاقی حرکات کو غصے اور بدلے کے نام پر انجام دیا کہ اس کی کسی طور پر حمایت نہیں کی جاسکتی۔ اور اسی چکر میں سماج کے شرپسند عناصر نے ہاتھ صاف کیا، اور دیکھا دیکھی میں کچھ سادہ لوحوں نے بھی بے شرمی کی حدیں پار کردیں۔ کوئی بھی ذی شعور اور معتدل انسان تخریب کو پسند نہیں کرسکتا ہے۔ اور یہاں تخریب کی ساری حدیں پار کردی گئیں۔ حسینہ کے محل میں تخریبی کاروائی پھر بھی کچھ سمجھ میں آتی ہے، اور اس کا کچھ عذر تلاش کیا جاسکتا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے املاک کو تباہ کرنا شر پسندی ہے۔ وہ بہ ہر حال قوم کی ملکیت ہے وہ حسینہ کی ملکیت نہیں ہے۔ اور ان ساری تخریب کاریوں میں عذر تلاش کرنے والے مسلمانوں سے عرض کروں گا کہ مال و جائیداد کو ضائع کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے۔ بہ حیثیت مسلم ہمیں کبھی بھی اس توڑ پھوڑ کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔

بنگالی قوم من جملہ طور نہ تو زانی ہے، نہ چور، نہ بدعہد، نہ جھوٹے۔ لیکن عوام میں ان برائیوں کے حامل افراد موجود ہیں۔ اس لیے چند لوگوں کے جرم کی بنا پر پوری قوم کو ہی برا کہنا اور ان اوصاف کا حامل قرار دینا واضح ظلم ہے۔ اور ایسے افراد کو لکھنے سے قبل سوچنا چاہیے۔



Post a Comment

0Comments

Please Select Embedded Mode To show the Comment System.*