ہم جس ملک کے باشندے ہیں اس کا نظام ایک دم توڑتی ہوئی
جمہوریت ہے۔ اور اس نظام کی بنیاد ہی انتخاب یعنی الیکشن ہے۔ اور ہمارے ملک کی بد
قسمتی ہے کہ یہاں اپنی روداد اور عمل کی بنیاد پر کسی کا انتخاب نہیں کیا جاتا ہے،
بلکہ جس فریق کا رہنما جس قدر چرب زبان اور ملمع ساز ہو گا اس فریق کے کامیاب ہونے
کے اتنے ہی امکانات ہیں۔
ہندوستان کے حالیہ انتخابات میں بر سر اقتدار پارٹی نے اس قدر بد عنوانیاں اور بدمعاشیاں کی ہیں کہ
ان کو چھپانے کے لیے قسم ہا قسم کے شگوفے چھوڑنے کے علاوہ دوسرا کوئی بھی متبادل
عمل نہیں ہے۔ انھیں شگوفوں اور جملوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ جملہ
کہ سیمانچل میں گھس پیٹھیوں کی بہتات ہے
اور حزب مخالف (اپوزیشن) آپ کی محنت کی کمائی انھیں گھس پیٹھیوں کے آل اولاد میں
تقسیم کردے گی۔ اس جملے سے وزیر اعظم کا سیدھا نشانہ سیمانچل میں آباد شیرشاہبادی ہیں۔
گھس پیٹھی والے اس
شگوفے کو کچھ لوگوں نے اچک لیا اور شیرشاہبادیوں کے تئیں مدتوں سے دبی دل میں کڑھن
اور گھٹن کے میل کو جہاں موقع ملا اگل دیا۔ کچھ نے کسی سیاسی بیان میں
شیرشاہبادیوں کو زعفرانی پارٹیوں کے حامیوں کا ساتھی قرار دیا۔ اور کچھ لوگ دبے
الفاظ میں انھیں غیر ملکی تک کہتے نظر آئے۔ شیرشاہبادی کے خلاف غم و غصہ اور بھڑاس
نکالنے کی ہوڑ میں کچھ ایسے افراد بھی پیش پیش نظر آئے جو خود اپنا نسب اپنے پردادا تک نہیں پہنچا سکتے ہیں۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی ملک کے مشہور و معروف یوٹیوب چینل دی
للّن ٹاپ (The
Lallantop) کا ایک انتخابی پروگرام ہے۔ انتخابات کے موقع
پر ہر چینل والے کچھ نہ کچھ پروگرام کرتے ہی رہتے ہیں۔ سوا نھوں نے بھی کیا۔ لیکن ملت
کے چند سوداگروں نے دل کی کڑھن اور گندگی کا اس پروگرام میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مظاہرہ
کیا ہے۔ اللہ انھیں عقل سلیم دے۔ ان بدباطنوں نے شیرشاہبادیوں کو بلا جھجک بنگلہ
دیشی گھس پیٹھی کہہ دیا۔ خباثت کی انتہا یہ ہے کہ ان شیطانوں کو بھی علم ہے کہ
شیرشاہبادی اپنا انتساب شیر شاہ سوری سے کرتے ہیں۔ اور بہار کا بیشتر علاقہ شیر
شاہ سوری کی حکومت کا حصہ رہا ہے۔ لیکن شاید یہ بھول گئے کہ بہار ہندوستان کا ہی
حصہ ہے۔
اولا ً تو یہ شیرشاہبادیوں کے معاملے میں نرے جاہل ہیں۔ نہ
انھیں ان کی تاریخ کا علم ہے نہ ہی ان کی ثقافت کا۔ بس برتری کی جنگ میں یہ
شیرشاہبادیوں سے آگے جانا چاہتے ہیں اور اسی لیے ہر وہ حربہ اپنا رہے ہیں جس سے
شیرشاہبادیوں کو زیر کیا جا سکے۔ جب کہ شیرشاہبادی تو خود ہی بہت پس ماندہ اور
پچھڑی قوم ہے۔
اس مختصر مضمون میں شیرشاہبادیوں کو گھس پیٹھی کہنے والوں
کے خلاف کسی قسم کی الزام تراشی ہرگز نہیں
کروں گا، کیوں کہ یہ جہالت ہو گی! اور ان
بے دلیل باتوں کا جواب دینا بھی کوئی ضروری نہیں ہے:
؏ اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
واقعی ان کے سارے الزامات دھوئیں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے
ہیں۔ ان کے الزامات انھیں کی باتوں کی روشنی میں بے بنیاد اور غلط ہیں۔ لیکن جواب صرف اس لیے تحریر کر رہا ہوں تاکہ ان کے بے
بنیاد اور جھوٹے بیانات پر ہی جو لوگ اپنی سیاسی روٹی سینکنے کی کوشش کریں گے،
انھیں آئینہ دکھایا جا سکے۔
اس سلسلے میں اپنی باتوں کو طول نہ دے کر میں صرف ذیل کے
چند امور پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔
1. شیرشاہبادی کون ہیں؟
2. ان کا محل وقوع کیا ہے؟
3. ہندوستان میں مقیم شیرشاہبادیوں کی حیثیت کیا ہے؟
شیرشاہبادی کے تعلق سے کوئی تاریخی دستاویز دستیاب نہیں ہے۔
البتہ اس برادری کو شیر شاہ سوری کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے بعض ماہرین
نے اس سلسلے میں الگ الگ آرا قائم کیے ہیں جو درج ذیل ہیں:
أ.
کچھ لوگوں کے مطابق یہ شیر شاہ سوری کے خاندان سے ہیں۔
ب. یہ شیر شاہ سوری کے فوجی ہیں، لیکن جب مغلوں نے حملہ کیا تو
یہ اپنی شناخت چھپا کر اپنے اسلحوں کو دفن کر کے ندی کے کناروں اور دور دراز کے علاقوں میں کاشت کاری کرنے لگے
اور عام انسانوں کی طرح گزر بسر کرنے لگے۔
ج.
یہ شیر شاہ سوری کے زمانے میں یہ ہند میں تجارت کرنے والے عرب تاجرین ہیں جو
بعد میں ہند میں ہی بس گئے۔
د.
یہ شیر شاہ سوری کے ذریعے بسائی گئی مسلم نوآبادیات کے باشندے ہیں جو مظلوم
تھے، اور شیر شاہ سوری نے نوآبادیات کی شکل میں انھیں پناہ دی تھی، اسی لیے انھیں ’شیر
شاہ آبادی ہا‘ کہا جانے لگا۔ جو بعد میں شیرشاہبادیا ہو گیا۔
تاریخ کے ماہرین کے ان دعووں کی روشنی جو بات سمجھ میں آتی
ہے وہ یہی ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے شیرشاہبادی بنیادی اعتبار سے ہی ہندوستانی ہیں۔
اولاً سارے شیرشاہبادی ہندوستانی ہی تھے۔ لیکن جب ہندوستان
کی تقسیم ہوئی تو ہندوستان کا ایک مسلم
اکثریتی علاقہ مشرقی پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اور نظام کے تحت ان علاقوں میں بسنے
والے سارے مسلمان بہ شمول شیرشاہبادی مشرقی پاکستان کا حصہ بن گئے۔ اور بعد میں یہ
حصہ بنگلہ دیش بنا۔ اور دیگر تمام لوگوں کی طرح شیرشاہبادیوں کے بھی بہت سے اعزہ و
اقارب بنگلہ دیش کا حصہ بن گئے۔ مواصلاتی مشکلات کے باوجود آج بھی شیرشاہبادی اپنے
ان رشتے داروں سے ملنے کے لیے قانونی طریقے سے بنگلہ دیش کی زیارت کرتے ہیں، اسی طرح بنگلہ دیش کے
شیرشاہبادی بھی بہ وقت ضرورت آتے ہیں۔ اور ویزہ کی مدت گزار کر واپس اپنے گھر چلے
جاتے ہیں۔ اور ان سب کا اندراج حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ وہ جب چاہے آنے جانے والے
افراد کو ٹریک کر سکتی ہے۔
یعنی شیرشاہبادی جس طرح ہندوستان میں بستے ہیں اسی طرح
بنگلہ دیش میں بھی بستے ہیں۔ لیکن ان کی بنیاد ہندوستان سے ہی ہے، بنگلہ دیش سے
نہیں۔ یعنی بنگلہ دیش میں تو یہ بیانیہ درست مانا جا سکتا ہے کہ ”شیرشاہبادی
ہندوستان سے آئے ہیں“، لیکن ہندوستان میں یہ بیانیہ کہ ”یہ پڑوسی ملک سے غیر
قانونی طور پر آکر ہندوستان میں آباد ہو گئے ہیں“ بالکل کھلا جھوٹ اور باطل ہے۔
اور صرف سیاسی مطلب براری کے لیے جان بوجھ کر اس جھوٹ کو بار بار دوہرایا جا رہا ہے۔
شیرشاہبادی
* اگر تاریخ کے ماہرین کے ان سارے دعووں کو درست مان لیا جائے تو بھی یہی طے ہوتا
ہے کہ شیر شاہ سوری کے زمانے سے ہی یہ لوگ ہندوستان میں بسے ہیں۔ جب کہ ہندوستان
کے آئین کے مطابق 1947 سے پہلے تک جو بھی شخص ہندوستان میں آباد تھا وہ بنیادی طور پر
ہندوستانی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیرشاہبادی حضرات کے ہندوستانی ہونے
میں کسی قسم کا کوئی شک یا اندیشے کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔
* سیمانچل میں بسنے والے
تقریباً سارے شیرشاہبادی کی 1947
سے پہلے سے ہی ہندوستان میں اپنی جائیدادیں ہیں جو حکومت کے دفتر میں نام زد ہیں۔
اس لیے ان کو گھس پیٹھی کہنا سنگین جرم ہے۔ اور ان ملت فروشوں کے خلاف قانونی چارہ
جوئی کی جائے تو وہ اپنے اس بیان کی بنیاد پر مشکلات میں گھر سکتے ہیں۔
* سیمانچل میں کچھ شیرشاہبادی ایسے بھی ہیں جو آزادی کے بعد
ریاست مغربی بنگال کے مرشد آباد اور اس کے
آس پاس کے علاقوں سے بہار منتقل ہوئے
ہیں۔ ہندوستانی شہری قانون کے مطابق ایک
ہندوستانی کشمیر اور مرکزی حکومت کے ماتحت
کچھ علاقوں کو چھوڑ کر ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں نقل مکانی کر سکتا ہے۔
* بہار میں بسنے والے شیرشاہبادیوں کو ہمارے عظیم رہنما مرحوم
مبارک حسین صاحب اور ان کے ساتھ دیگر لوگوں نے باقاعدہ طور پر ریزرویشن دلایا
ہے۔ اس سے بھی ثابت ہے کہ حکومت ہند کی
نظر میں بھی یہ آبادی ہندوستانی ہی ہے۔
؏ لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
اس لیے عقل مندی کا تقاضا ہے کہ گھس پیٹھی کے اس بیان کی
مذمت ہر مسلمان کرے، اور اس کی تردید کرے۔ کیوں کہ آج ہندوستان کا سیاسی حال ہر
کوئی جانتا ہے۔ تو آئیے اپنے دل سے بغض و عناد کو نکالیے اور جہاں تک آپ سے ممکن
ہو اس بات کی تردید کیجیے کہ آپ ہی کا کوئی بھائی چاہے وہ کسی بھی برادری کا ہو وہ
گھس پیٹھی ہرگز نہیں ہے۔ کیوں کہ بہ حیثیت مسلمان آپ پر اللہ نے جھوٹ کو حرام قرار
دیا ہے، اس لیے جھوٹ کا ساتھ دے کر حرام کاری میں ملوث نہ ہوں۔ اور اگر آپ کو واقعی شیرشاہبادیوں کی حقیقت کا علم نہیں ہے، تو آپ خاموشی اختیار
کیجیے، ہر جگہ بولنا ضروری تو نہیں ہے۔ اور اگر آپ کو علم ہے تو آپ کھل کر اس
بیانیے کی تردید کریں، کیوں کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ اللہ ہمیں عقل سلیم دے۔
30/04/2024 ، منگل