خود پسندی ایک لا علاج بیماری!
عموماً انسان کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتا ہی ہے۔ معدودے چند ہی ہوں گے جو ہر قسم کی بیماریوں سے محفوظ ہوں۔ اور بیماری بنیادی طور پر یا تو جسمانی ہوتی ہے یا پھر روحانی و اخلاقی! دونوں قسم کی بیماریوں کی فہرست طویل ہے۔ انہی میں سے ایک بیماری ہے خود پسندی! جو بہت ہی مہلک ہے۔ اب یہ کس زمرے کی بیماری ہے آپ خود ہی طے کر لیں! لیکن یہ طے ہے کہ یہ مہلک ہے۔
سوشل میڈیا کے برکات میں سے ایک برکت یہ ہے کہ ہر کس و ناکس اب مفکر ملت، اور دانش ور بن چکا ہے۔ اور جن مسائل کے الف با سے واقفیت نہیں ہے، ان کے ایک دو مضمون پڑھ کر اپنی دانش وری سے سوشل میڈیا کے صفحات کو سیاہ کیے جا رہے ہیں! ہو سکتا ہے کہ میں بھی اسی مرض کا مریض ہوں! کیوں کہ انسان ہوں تو اس امکان سے خود کو بالاتر نہیں سمجھ سکتا ہوں۔
اب سوشل میڈیا میں کچھ ایسے دانش وران سامنے آ رہے ہیں کہ ان میں یہ مرض اس طرح سے سرایت کر گیا ہے کہ اب یہ ان کی فطرت ثانیہ کی جگہ پر ہے۔
ایک اسی طرح کے دانش ور و مفکر ملت کے تعلق سے ایک عالم دین کی تحریر نظروں سے گزری! یقین مانیں آج کل شارٹ ویڈیوز اور اسکرولنگ کے ٹرینڈ کے بعد کوئی بھی طویل تحریر پڑھنے کا دل نہیں کرتا! ہمارے دکتور وسیم محمدی اور رشید و عزیر جیسے چند ایک ہی ہیں جن کی تحریر طویل بھی ہو تو پڑھنا پڑتا ہے! لیکن اس نثری قصیدے کو دانستہ طور پر مکمل پڑھا۔ تب لگا کہ اس عظیم مفکر و درویش صفت شخص کا مرید بننا چاہیے، کیوں کہ علم سے وابستہ اشخاص کی طرف سے اس قسم کا نثری قصیدہ اسی کا متقاضی ہے۔ اور ایسے با صلاحیت و ذی علم افراد سے چاپلوسی یا تملق کی نسبت کرنے سے زیادہ بہتر یہی ایک راستہ ہے کہ بیعت ہی کر لی جائے۔ خیر اس نثری قصیدے کو پڑھ کر تجسس ہوا، اور ان پر لکھنے والوں سے رابطہ کیا، تب میری کیفیت عجیب تھی! کہ ایسا بھی کوئی کر سکتا ہے؟!! کیوں کہ جب معلومات ملی تو ہر بات اپنی جگہ تعجب خیز تھی! خیر اس بات کو یہیں رہنے دیں۔ اور اس مرض کے مریضوں کی خبر لیں!
اس مرض کے ایسے مریض پائے گئے ہیں کہ تعلیم یافتہ لوگوں سے اصرار کر کے اپنی تعریف میں مضمون لکھواتے ہیں۔ اور اس مضمون میں معمولی ترمیم کی اجازت لے کر خود اپنی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ اور اس غیر معمولی ترمیم کو "معمولی ترمیم" کہہ کر سینہ زوری سے اسے کسی اخبار میں چھپوا کر اخبار کی زینت بگاڑتے ہیں!!
کچھ ایسے مریض بھی ہیں جو موقر شعرا کو اپنی بے بنیاد ڈگریوں کا محض حوالہ دے کر قصیدہ لکھنے کا اصرار کرتے ہیں، اور یہ اصرار اس قدر ہوتا ہے کہ شاعر کسی طرح قصیدہ لکھ کر اپنی جان چھڑاتا ہے۔
کچھ ایسے مریض بھی ہیں جو گمنام شاعروں کو چھوڑیے بشیر بدر جیسے شاعر کے کلام کو بھی اپنے تخلص کا استعمال کر کے بنداس شیئر کرتے ہیں اور غضب یہ ہے کہ محفل و مجلات میں تکلف اور اصرار کے ساتھ خود کو شاعر اور زبان و ادب کا خادم کہلواتے ہیں۔
کچھ ایسے مریض بھی ہیں جو دوسروں کے مضمون کو مکمل طور پر نقل کر کے اپنی پروفائل پر نشر کرتے ہیں، اور جان بوجھ کر قلم کار کا نام مٹا دیتے ہیں۔ اور وہ خود کو قلم کار باور کراتے ہیں۔ اس عمل میں کچھ نامور لوگ بھی پیش پیش نظر آئے۔ واللہ المستعان!
خود کی تعریف خود ہی کرنا یا لوگوں سے کروانا بڑی خبیث بیماری ہے! اور بڑی ذلیل و رذیل بھی ہے! اس لیے خود پسندی سے حتی الامکان بچنے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے۔
یہ تحریر کسی خاص شخص پر مرکوز نہیں ہے۔ ہر تعریف پسند یا خود کی تعریف کروانے والے افراد کو اس تحریر میں اپنا کردار نظر آئے گا، اور اگر بیماری ابتدائی مرحلے میں ہے تو اسے برا ضرور لگے گا، اور اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرے گا ورنہ پھر بے شرمی کی تو کوئی متعین حد و سرحد نہیں ہے۔