جن سوراج - ایک اُمید یا سازش؟

ظفر شیر شاہ آبادی
Posted By -
0




 ظفر شیرشاہبادی (مسعود ظفر)

 ڈائریکٹر علوم ایڈوکیئر، کٹیہار


کئی روز قبل ایک تحریر نظر سے گزری۔ جس میں صاحب تحریر نے بہار کے مسلمانوں کو کسی بڑی سازش سے آگاہ  کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ تحریر پڑھا تو میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ آخر اسے کیا سمجھوں؟! دراصل ہمارے بعض  "دانش ور " ایسے کمال کے ہیں کہ وہ اپنی رائے کو تھوپنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ چاہے ان مسائل کے ابجد سے بھی واقفیت نہ ہو تو بھی اپنی رائے کو حتمی سمجھتے ہیں۔ صاحب تحریر کے مطابق پرشانت کشور  چوں کہ 2014  کے عام انتخابات میں آج  کے مرکز میں بر سر اقتدار  پارٹی کو جیت دلانے میں اہم کردار نبھایا ہے۔ کہ انہی کی حکمت عملی کی وجہ سے بھاجپا کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔ اس لیے پرشانت کشور کے لیے اب کسی اور پارٹی یا بھاجپا کے مفاد کے خلاف کسی بھی قوم کی ترقی کے بارے میں سوچنا جرم ہوگیا۔ حال آں کہ سیاست کی معمولی شد بد  رکھنے والے بھی اس بات سے واقف ہوں گے کہ پرشانت کشور سیاست کے بازار میں ایک دکان دار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو قیمت لے کر سیاسی حکمت عملیاں بناتے ہیں ۔اب اس دکان سے  کوئی بھی قیمت دے کر حکمت عملی خرید سکتا ہے، جو کہ 2014 میں بھاجپا نے کیا۔ اور پرشانت کشور نے اس قدر کارگر اور کامیاب حکمت عملی اپنائی کہ واضح اکثریت سے اپنے کلائینٹ کو کامیاب کروایا۔    کوئی بھی دکان دار اپنا سامان کسی کو بھی بیچ سکتا ہے۔ پھر اگر سوچ اتنی تنگ ہو کہ فلاں پلانر نے فلاں سیاسی جماعت کی پلاننگ کرکے اسے کامیاب کیا ہے، اس لیے وہ پلانر ہی سازشی ہوا، یہ نتیجہ  قائم کرنا اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے۔

صاحب تحریر کے مطابق پرشانت کشور کو بہار کی دیگر قوموں کو چھوڑ کر صرف مسلمانوں کی فکر کیوں ستانے لگی؟! یہ اعتراض بھی بے جا اور مضحکہ خیز ہے۔ اولا تو صرف سنی سنائی باتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا حماقت ہے۔ اور اگر کوئی سیاسی رہنما کسی بھی پس ماندہ قوم کے لیے فکر مند ہوتا ہے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟ ہندوستانی سیاست میں اس کی کئی نظیر موجود ہے کہ پس ماندہ قوموں کے لیے  سیاسی رہنما ؤں نے آواز اٹھائی، اور لوگ اس آواز کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اور آپ سے یہ کس نے کہا کہ دیگر اقوام کو چھوڑ کر پرشانت کشور نے صرف مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی ہے؟! آپ کی معلومات یا تو ادھوری ہیں یا آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، کیوں کہ پرشانت کشور کو واضح طور پر کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ " میں مسلمانوں کا مسیحا یا رہنما ہرگز نہیں ہوں، اور آپ مجھے اپنے رہنما کے طور پر بالکل نہ دیکھیں۔ میں بہار کو ترقی کے راستے پر دیکھنا چاہتا ہوں، اور مسلمانوں کی حصہ داری کے بہ غیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ بہار کی کامیابی اور ترقی اسی صورت میں ممکن ہوگی جب اس کے باشندگان میں سے ہر قوم کو اس کی آبادی کے تناسب سے حصہ داری ملے گی۔"

اعتراض یہ بھی ہے کہ اگر پرشانت کشور واقعی مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں تو  نئی پارٹی نہ بنا کر بہار کی دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر آواز کیوں نہیں اٹھاتے ہیں؟ اس اعتراض سے صاحب تحریر کی سیاسی بصیرت کا پتہ چل جاتا ہے۔ یہ اتنا بچکانہ ہے کہ اس پر تبصرہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سیاست پر نظر رکھنے والے بہ خوبی جانتے ہیں کہ بہار کو تنزلی کی دلدل میں دھکیلنے والی یہ سیاسی جماعتیں پرشانت کشور کو کیوں حاوی ہونے دیں گی؟ اور پرشانت کشور ان سے کس حق سے اپنی بات منوائیں گے؟؟ کانگریس جیسی قدیم اور مضبوط سیاسی جماعت تک کو جب بہار کی یہ پارٹیاں مجبور کردیتی ہیں۔ اور پورنیہ سیٹ پر حالیہ عام انتخابات میں آر جے ڈی کی طرف سے جو گندی سیاست ہوئی اس سے کون بے خبر ہے؟؟ بہار کی یہ سیاسی جماعتیں اپنی اجارہ داری کو ختم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔ اسی لیے ابھرنے والے ہر سیاسی رہنما کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اور ان کا راستہ تنگ کرتے ہیں۔ پپو یادو کے خلاف جو سیاست ہوئی اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ اسی طرح کنہیاکمار اور دیگر سیاسی لیڈروں کو دبانے والی سیاسی پارٹی کب کسی کو اپنی پارٹی میں سر اٹھانے کا موقع دے گی؟؟!!

میں نے اس سلسلے میں مزید جان کاری کے لیے جن سوراج پارٹی کے فاؤنڈر ممبروں میں سے ایک معروف سیاست دان جناب نسیم اختر ندوی صاحب سے بعض امور کی تفصیل طلب کی۔ اور مختلف ذرائع سے پرشانت کشور کی باتیں سنیں۔ جن میں سے کچھ باتیں واقعی بہت بہترین ہیں۔ اگر ان پر عمل ہو تو یہ بہار کے لیےنشأۃ ثانیہ ثابت ہوں گی:

  •  جن سوراج کا بنیادی مقصد کسی مخصوص قوم کی نمائندگی ہرگز نہیں ہے، جیسا کہ بعض لکھنے والے ایسا الزام لگا رہے ہیں۔
  • جن سوراج کا بنیادی مقصد صرف اور صرف بہار کی ترقی ہے۔
  •   جن سوراج کا ماننا ہے کہ کسی بھی علاقے کی ترقی اسی صورت میں ممکن ہے جب اس علاقے میں بسنے والے تمام اقوام کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ داری ملے۔ مسلم چوں کہ 18 فی صد ہیں، اس لیے بہار میں مسلم ایم ایل اے کی تعداد 40 ہونی چاہیے۔ جو کہ ابھی 20 سے بھی کم ہیں۔
  •   جن سوراج پارٹی میں عہدوں کی تقسیم میں بھی آبادی کے تناسب کا خیال رکھا گیا ہے۔
  •   جن سوراج پارٹی کے ہر ضلع کی اکائی میں بہار کی پانچ قوموں کو نمائندگی کا برابر حق ملے گا۔ اس کے مطابق پارٹی  کے اعلی عہدے پر ہر قوم کو ایک سال  کا موقع ملے گا۔یعنی پانچ سالوں میں پانچوں اقوام کو ایک ایک سال کی نمائندگی دی جائے گی۔

میں نے اعتراض کیا  کہ ہندوستانی سیاست کا مزاج اب بہت بدل چکا ہے۔  آج  کا ووٹر مذہبی جنون کا شکار ہے ۔ ایسے میں مسلمانوں کو 40 سیٹوں پر اتارنے کی بات کس قدر کار آمد ہوگی؟ مجھے تو یہ صرف ایک سیاسی جملہ لگتا ہے!! تو انھوں نے جوابا ً کہا کہ: بہار میں  تقریبا 62   سیٹوں پر مسلمان اس حالت میں ہیں کہ وہاں کے امیدوار کی کامیابی کا انحصار مسلمانوں پر ہے۔ یعنی ان سیٹوں پر مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر مناسب رہنمائی ہو تو ان سیٹوں پر مسلمانوں کویقینی طور پر  نمائندگی مل سکتی ہے۔

پرشانت کشور کی اس بات سے  اتفاق کیا جانا چاہئے کہ مسلمانوں کا اصل دشمن آر ایس ایس ہے نہ کہ بھاجپا۔ اوربھاجپا تو صرف ایک آلۂ کار ہے۔ اس لیے آر ایس ایس کے حربوں سے آگاہ ہونا ہوگا۔ اور ہر کسی پر یہ حکم لگانا کہ  وہ بھاجپا کی B ٹیم ہے، یہ ایک نا انصافی ہے۔ در اصل ہمارے کچھ "دانش وران" مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنے والے ہر سیاست دان کو پکا نمازی اور مسلم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے مذہبی امور کو انجام دیتا ہے، یا اپنے مذہبی تقریبات میں خوشیوں کا اظہار کرتا ہے، تو ہمیں اس میں بھی مسلم دشمنی نظر آتی ہے۔  انھیں بھگوا کپڑے پہنتے دیکھ ہی بعضوں کی سیاسی بصیرت جاگ اٹھتی ہے۔ یا ان کے مذہبی عبادت خانوں میں انھیں عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر دانش وران ملت کو  ان کی مسلم دشمنی نظر آنے لگتی ہے۔ ہندوستان  کی سیاست میں اس طرح کے افکار پریشاں سیاست کے تعلق سے کم فہمی  کی دلیل ہیں۔   

 بادی النظر میں جن سوراج ایک نئی پارٹی ہی سہی لیکن عوام کے مسائل پر بات کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے پاس واضح اور شفاف حکمت عملی ہے۔ اور سے جڑنے والے لوگوں میں سیاسی بصیرت رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں ہیں۔ انتخابات میں گو کہ ابھی وقت ہے۔ اس لیے ابھی کوئی تخمینہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات میں جن سوراج پارٹی اثر انداز ہونے والی ہے۔

 جن سوراج کی کئی باتیں ہیں جو قابل تعریف ہیں۔ اس پارٹی  کے خلاف کسی قسم کابیان دینے سے پہلے اس کی حکمت عملی کو دیکھنا چاہیے۔ اور اگر واقعی کچھ باتیں ہیں جو غلط ہیں تو ان پر ضرور تنقید ہونی چاہیے۔ محض افواہ یا سنی سنائی باتوں کو بنیاد بناکر کسی کو مطعون کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہو سکتاہے۔                                                                                        ٭٭٭                                                                                        




Post a Comment

0Comments

Please Select Embedded Mode To show the Comment System.*